بچوں کا حج

بچوں کا حج

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

دُرُود شریف کی فضیلت

رسولِ نذیر ، سِراجِ منیر،محبوبِ ربِّ قدیر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکا فرمانِ دلپذیر ہے:ذِکرِ الٰہی کی کثرت کرنا اور مجھ پر دُرُودِ پا ک پڑھنا فقر(یعنی تنگدستی) کو دُور کرتا ہے ۔(اَلْقَوْلُ الْبَدِ یع،ص۲۷۳)

عالمِ وَجد میں رقصاں مِرا پَر پَر ہوتا

کاش! میں گنبد خضرا کا کبوتر ہوتا

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سُوال :کیا بچّے بھی حج کر سکتے ہیں؟

جواب: جی ہاں۔چُنانچِہ حضرت سیِدُناعبد اللّٰہ بن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ سرکار دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَمقامِ رَوْحامیں ایک قافلے سے ملے تو فرمایاکہ یہ کون لوگ ہیں؟ اُنہوں نے عَرْض کیا کہ ہم مسلمان ہیں، پھر اُنہوں نے عَرْض کیا :آپ کون ہیں ؟ فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا رسول ہوں۔ ان میں سے ایک خاتون نے بچّے کو اُوپر اُٹھا کر پوچھا :کیا اس کا بھی حج ہو جائے گا؟ فرمایا: ہاں اور تجھے بھی اس کا ثواب ملے گا۔ (مسلم ص ۶۹۷ حدیث ۱۳۳۶)

مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں: یعنی بچّے کو بھی حج کا ثواب ملے گا حج کرنے کا اورتجھے بھی اس کے حج کاثواب ملے گا حج کرانے کا۔ مزید فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچّوں کی نیکیوںکا ثواب(بچّے کو تو ملتا ہے اُس کے)ماں باپ کو بھی ملتا ہے لہٰذا انہیں نَماز روزے کا پابند بناؤ۔(مراۃ ج۴ص۸۸)

سُوال : تو کیا حج کرنے سے بچّے کافرض ادا ہو جائے گا؟

جواب: جی نہیں۔حج فرض ہونے کے شرائط میں سے ایک شرط’’بالِغ ہونا‘‘ بھی ہے چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْرَّحْمٰنفرماتے ہیں: بچّے پر(حج) فرض نہیں،(اگر)کرے گا تو نَفْل ہوگا اور ثواب اُسی (یعنی بچّے ہی) کے لئے ہے، باپ وغیرہ مُرَبّی تعلیم و تربیَّت کا اَجر پائیں گے ۔پھر (جب)بعدِ بُلوغ شرطیں جَمْعْ ہوں گی اِس پر حج فرض ہوجائے گا، بچپن کا حج کِفایت نہ کریگا ۔(فتاویٰ رضویہ مخرجہ ج۱۰ ص۷۷۵)

سُوال :مناسِک حج کی ادائیگی کے اعتبار سے بچّوں کی کتنی اَقسام ہیں؟

جواب: اِس اعتبار سے بچّوں کی دوقِسمیںہیں:{۱}سمجھ دار: جو پاک اور ناپاک ، میٹھے اور کڑوے میں تمیز کر سکتا ہو مَعرِفت(یعنی پہچان) رکھتا ہو کہ اسلام نَجات کا سبب ہے( ارشاد الساری حاشیہ مناسک ص۳۷){۲} نا سمجھ: جو مذکورہ (یعنی بیان کردہ)سمجھ نہ رکھتا ہو۔

سُوال : کیاسمجھ دار بچّے کوخود مناسِکِ حج ادا کرنے ہوں گے؟

جواب: جی ہاں۔سمجھ وال(یعنی سمجھدار)بچّہ خود اَفعالِ حج کرے ،رَمی وغیرہ بعض باتیں(اُس بچّے نے) چھوڑ (بھی)دِیں تو اُن (کے چھوڑنے)پر کفّارہ وغیرہ لازِم نہیں۔ (بہارشریعت ج۱ ص۱۰۷۵)

سُوال : اگر سمجھدار بچّہ بعض افعالِ حج خود بجالا سکتا ہو اور بعض نہ کر سکتا ہو تو کیا کرے ؟ کیا کسی کو نائب کر سکتا ہے؟

جواب: حضرتِ علّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی فرماتے ہیں: جو اَفعال سمجھ دار بچّہ خود کرسکتا ہو اس میں کسی کو نائب بنانا دُرُست نہیں ہے اور جو خود نہیں کرسکتا اُن میں نائب بنانا دُرُست ہے مگر طواف کے بعد کی دورَکعتیں اگربچّہ خود نہ پڑھ سکے تو کوئی دوسرا اس کی طرف سے ادا نہیں کرسکتا۔(اَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّط لِلقاریص۱۱۳)

نا سمجھ بچّے کے حج کا طریقہ

سُوال : ناسمجھ بچّہ مناسِک حج کیسے ادا کرے گا؟

جواب: جن اَفعال میں نیّت شَرْط ہے وہ ولی (یعنی سر پر ست )اس کی طرف سے بجا لائے گا اور جن میں نیّت شَرْط نہیں وہ خود کرسکتا ہے چُنانچِہ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَامفرماتے ہیں: ’’ناسمجھ بچّے نے خود اِحرام باندھا یا اَفعالِ حج ادا کیے تو حج نہ ہوا بلکہ اُس کا ولی (یعنی سرپرست)اُس کی طرف سے بجا لائے مگر طواف کے بعد کی دورَکعتیں کہ بچّے کی طرف سے ولی (یعنی سر پر ست)نہ پڑھے گا۔ اس کے ساتھ باپ اوربھائی دونوں ہوں تو باپ اَرکان ادا کرے ۔‘‘(عالمگیری ج اص۲۳۶،بہارِشریعت ج اص۱۰۷۵)

صَدرُالشَّریعہ،بَدرُالطَّریقہحضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: یہ (نا سمجھ بچّہ یا مَجنون یعنی پاگل) خودوہ اَفعال نہیں کرسکتے جن میں نیّت کی ضَرورت ہے، مَثَلاًاِحرام یا طواف، بلکہ ان کی طرف سے کوئی اور کرے اور جس فِعل میں نیّت شَرط نہیں، جیسے وُقوفِ عَرَفہ وہ یہ خود کرسکتے ہیں۔(بہارشریعت ج۱ ص۱۰۴۶)

سُوال : کیا اِحرام سے پہلے بچّوں کو بھی غسل کروایا جائے؟

جواب: جی ہاں۔’’فتاوٰی شامی‘‘ جلد 3صَفْحَہ 557پر لکھے ہوئے جُزئیے کا خلاصہ ہے کہ سمجھدار اور ناسمجھ دونوں بچّے ہی غسل کریں گے۔ البتّہ یہ فرق ہے کہ عاقِل کے لئے تو خود غسل کرنا مُستَحَب ہے اور ولی کے لئے غسل کا حُکْم دینا مُستَحَب ہے جبکہ ناسمجھ بچّے کو ولی کا خود غسل کروانا یا بچّے کی والدہ وغیرہ کے ذَرِیعے کروانامُستَحَب ہو گا۔

سُوال:کیا نا سمجھ بچّے کو اِحرام بھی پہنانا ہو گا؟

جواب: جی ہاں۔یوں کرنا چاہیے کہ ناسمجھ بچّے کے سِلے ہوئے کپڑے اُتار کر چادر اور تہبند وَلی غیرِ ولی(یعنی سرپرست یا غیر سرپرست) کوئی بھی پہنا دے مگر اُس طرف سے باپ ، باپ نہ ہو تو بھائی اور بھائی نہ ہو توجو بھی نَسَب (یعنی خونی رشتے ) کے اعتِبار سے قریبی رشتے دار ہو وُہ اُس کی طرف سے اِحرام کی نیّت کرے اور ان باتوں سے بچائے جومُحرِم کے لئے ناجائز ہیں۔ چُنانچِہ صَدرُالشَّریعہ،بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: بچّے کی طرف سے اِحرام باندھا تو اُس کے سلے ہوئے کپڑے اُتار لینے چاہئیں، چادر اور تہبند پہنائیں اور اُن تمام باتوں سے بچائیں جو مُحرِم کے لیے ناجائز ہیں ۔ (بہارشریعت ج۱ حصہ۶ ص۱۰۷۵)سمجھ دار بچّہ احرام کی نیّت خود کرے گا،ولی (یعنی سر پرست)اس کی طرف سے اِحرام نہیں باندھ سکتا۔جیسا کہ ’’شامی ‘‘میں ہے : ’’اگر بچہ سمجھ دار ہو تو اسے خود اِحرام باندھنا ہوگا ، ولی (یعنی سرپرست) اس کی طرف سے نہ باندھے کہ جائز نہیں۔‘‘(رَدُّالْمُحتار ج۳ ص۵۳۵ )اگر سمجھدار بچّہ خود اِحرام باندھنے کی قدرت رکھتا ہو تو اسے خود اِحرام باندھنا ہو گا ولی(یعنی سرپرست) اس کی طرف سے اِحرام نہیں باندھ سکتا اور نہ ولی کے باندھنے سے سمجھداربچّہ مُحرِم ہو گا اوراگر سمجھدار بچّہ خود اِحرام باندھنے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو ولی اس کی طرف سے اِحرام باندھے گا۔

سُوال: ناسمجھ بچّے کی طرف سے کیا ولی کو اِحرام کے نَفل پڑھنے ہو ں گے؟

جواب: جی نہیں،ناسمجھ بچّے کی طرف سے اس کا ولی اِحرام کے نفل نہیں پڑھ سکتا ۔

نا سمجھ بچّے کی طرف سے نیّت اور لَبَّیْک کا طریقہ

سُوال: ناسمجھ بچّے کی طرف سے احرام کی نیّت اور لَبَّیْک کا طریقہ بتا دیجئے۔

جواب:ناسمجھ بچّے کی طرف سے اِحرام کی نیّت اس کا ولی کرے اور اس طرح کہے: اَحْرَمْتُ عَنْ فُلَانٍ یعنی میں فُلاں کی طرف سے اِحرام باندھتا ہوں (فُلاں کی جگہ اس بچّے کا نام لے)،اسی طرحلَبَّیْک بھی بچّے کی طرف سے اس طرح کہے: لَبَّیْکَ عَنْ فُلَانٍ(فُلاں کی جگہ اس کا نام لے اور آخِر تک لَبَّیْک مکمل کرے ) عَرَبی میں نیّت اُسی وَقت کا رآمد ہو گی جبکہ معنیٰ معلوم ہوں، اپنی مادَری زَبان یا اردو میں بھی نیّت کر سکتے ہیں مَثَلاً بچّے کا نام ہِلال رضا ہے تو یوں نیّت کیجئے: ’’ میں ہِلال رضا کی طرف سے اِحرام باندھتا ہوں۔‘‘ یہ بھی ذِہن میں رہے کہ دل میں نیّت ہوناشَرْط ہے جبکہ زَبان سے نیّت کرنامُستحب ہے۔ اگر زَبان سے نیّت نہ بھی کی تو کوئی حَرَج نہیں ۔لَبَّیْک زَبان سے کہنا ضَروری ہے اور وہ بھی کم از کم اتنی آواز سے کہ اگر سننے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوتو خود سُن لے اور یہاں اِس طرح کہنا ہے: مَثلاً لَبَّیْکَ عَن ہِلال رضا اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَط لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَط اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَط لَاشَرِیْکَ لَکَط

ناسمجھ کی طرف سے طَواف کی نیّت اور استِلام کا طریقہ

سُوال:ناسمجھ بچّے کی طرف سے طواف اور حجرِ اَسود کے استِلام کی نیّت کا طریقہ ارشاد ہو۔

جواب:دل میں نیّت کافی ہے اور بہتر ہے زَبان سے بھی اِس طرح کہہ لے: مَثَلاً ’’میں ہِلال رضا کی طرف سے طواف کے سات پھیروں کی نیّت کرتا ہوں‘‘اور اس کے بعد جو اِستلام ہوں گے وہ بھی بچّے کی طرف سے ہوں گے ۔

سُوال:گود میں اٹھا کر طواف کروائے یا انگلی پکڑ کر؟

جواب:جس طرح سَہُولَت ہو۔

سُوال: کیا ساتھ میں ولی اپنے طواف کی بھی نیّت کر سکتا ہے؟

جواب:جی ہاں، بلکہ کر لینی چاہئے کہ اِس طرح ایک ساتھ دونوں کا طواف ہو جائیگا۔مگریہ ذِہن میں رہے کہ ہر پھیرے میں دوبار استِلام کرنا ہو گا ایک بار اپنی طرف سے اور ایک بار بچّے کی طرف سے۔

سُوال:بچّہ طواف کیسے کرے گا؟

جواب: سمجھ دار بچّہ خود طواف کرکے طواف کے نوافِل ادا کرے جبکہ ناسمجھ بچّے کواُس کا ولی(سرپرست) طواف کرائے ،مگرطواف کی دو رکعتیں بچّے کی طرف سے ولی(سرپرست) نہ پڑھے۔ (بہارشریعت ج۱ ص۱۰۷۵)

سُوال :بچے کو رمی کس طرح کروائیں؟

جواب: سمجھ دار خود رَمی کرے اور نا سمجھ کی طرف سے اُس کے ساتھ والے رَمی کر دیں اور بہتر یہ ہے کہ ان کے ہاتھ پر کنکری رکھ کر رمی کرائیں۔ (منسک متوسط ص۲۴۷،فتاویٰ رضویہ مخرجہ ج۱۰ ص۶۶۷ بہارشریعت ج۱ ص۱۱۴۸)

سُوال : بچّے کے مناسکِ حج سے کچھ رہ گیایا اس نے کوئی ایسافِعل کیا جس سے کفّارہ یا دم لازم آتا ہے تو کیا حکم ہے؟

جواب :بچّہ کسی عمل کو چھوڑ دے یا ممنوع کام کرے تو اس پر نہ قضا واجب ہے اور نہ کفّارہ ۔ یوہیں ناسمجھ بچّے کی طرف سے اُس کے ولی (سرپرست)نے اِحرام باندھا اور بچّے نے کوئی ممنوع کام کیا تو باپ پر بھی کچھ لازِم نہیں۔ (عالمگیری ج۱ ص۲۳۶،بہارشریعت ج۱ ص۱۰۷۵)

سُوال : بچّہ اگر حج فاسد کردے تو کیا کرنا ہو گا؟

جواب: بچّے نے حج کو فاسِد کر دیا تونہ دم واجب ہے نہ قضا۔اگرچِہ وہ سمجھدار بچّہ ہو۔(عالمگیری ج۱ ص۲۳۶،رَدُّالْمُحتارج۳ ص۶۷۳)

سُوال :بچّے کیلئے حج کی قربانی کا کیا حُکم ہے؟

جواب: بچّہ چاہے سمجھدار ہو یا ناسمجھ اِس پر (حج تَمتُّع یا قِران کی) قربانی واجِب نہیں ۔(اَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّط لِلقاری ص ۲۶۳)اور حجِ اِفراد کی توبڑوں پر بھی واجِب نہیں۔

سُوال : اگر ولی ( سرپرست ) بچّے کی طرف سے حج کی قربانی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے یا نہیں؟

جواب: کر سکتا ہے مگر اپنی جیب سے کرے ۔ بچّے کی رقم سے کریگا تو تاوان دینا پڑیگا یعنی اُتنی رقم پلّے سے بچّے کو لوٹانی ہو گی۔

بچّے کے عُمرے کا طریقہ

سُوال : کیا بچّے کو عمرہ کروا سکتے ہیں ؟ اگر ہاں تو طریقہ کیا ہو گا ؟

جواب: کروا سکتے ہیں۔ مسائل میں یہاں بھی وُہی سمجھدار اور ناسمجھدار بچّے والی تفصیل ہے۔البتّہ اِس میں مزیدتفصیل یہ ہے کہ بَہُت چھوٹے بچّے کو مسجِد میں داخِل کرنے کے اَحکام پر غور کرلیں ۔حُکْم یہ ہے کہ اگربچّے سے نَجاست کا غالب گمان ہے تو اسے مسجِد میں لے جانا مکروہِ تحریمی ورنہ مکروہِ تنزیہی۔

سُوال :کیا بچّے کو بھی حلق یا قصر کروایا جائے؟

جواب: جی ہاں۔ البتّہ بچّی کو قصر کروائیں گے ۔اگر دودھ پیتی یا بَہُت چھوٹی بچّی ہو توحَلق کروانے میں بھی حَرَج نہیں۔

بچّہ اورنفلی طواف

سُوال : نفلی طواف میں بچّے کے کیا اَحکام ہیں؟

جواب: سمجھدار بچّہ خود اپنی نیّت کرے اور طواف کے بعد والے نَفْل بھی ادا کرے جبکہ ناسمجھ بچّے کی طرف سے اُس کا ولی(سرپرست) نیّت کرے ۔ طواف کے نفلوں کی حاجت نہیں۔

سُوال : بچّہ بِغیر احرام اگر مِیقات کے اندر داخِل ہوا اور اب بالِغ ہو گیا تو کیا اُس پر دم واجِب ہو جائیگا؟

جواب :نہیں۔بہارِشریعت جلد اوّل صَفْحَہ 1192پر ہے: نابالِغ بِغیر اِحرام مِیقات سے گزرا پھر بالِغ ہوگیا اور وَہیں سے احرام باندھ لیا تو دم لازم نہیں ۔ یونہی اگر وہ حل یعنی بیرونِ حَرَم اورحُدودِ میقات کے اندرمیں بالِغ ہوا،تو حلی کے اَحکام اس پر لگیں گے یعنی حج یاعمرہ کے لیے حَرَم جانا ہے تو حل سے اِحرام باندھ لے اور اگر ویسے ہی حَرَم جانا ہے تو بِغیر اِحرام کے بھی جاسکتا ہے اور حَرَم میں بالِغ ہواتو حرمی کے اَحکام اس پر لگیں گے یعنی حج کا اِحرام حَرَم میں باندھے گا اور عمرہ کا اِحرام حَرَم کے باہَر سے اور اگر کچھ نہیں کرنا تو اِحرام کی حاجت نہیں۔

سُوال : مَدَنی مُنّے یا مَدَنی مُنّی کو مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں لے جا سکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب: سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، فیض گنجینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا فرمانِ با قرینہ ہے:مسجدوں کو بچّوں اورپاگلوںاور خریدو فروخت اور جھگڑے اور آواز بُلند کرنے اور حُدود قائم کرنے اور تلوار کھینچنے سے بچاؤ ۔( اِبن ماجہ ج ا ص ۴۱۵،حدیث ۷۵۰)

ایسا بچّہ جس سے نَجاست (یعنی پیشاب وغیرہ کردینے) کاخطرہ ہو اور پاگل کو مسجِدکے اندرلے جانا حرام ہے اگر نَجاست کا خطرہ نہ ہو تو مکروہِ(تنزیہی) ۔جو لوگ جُوتیاں مسجِد کے اندر لے جاتے ہیں ان کو اِس کا خیال رکھنا چاہئے کہ اگر نَجاست لگی ہو توانہیں اچّھی طرح پاک اورصاف کریں کہ نہ نَجاست رہے اور نہ اس کی بدبُو ،البتّہ اگرپاک نہیں کیا لیکن اس طرح صاف کرلیاہے کہ نہ تو مسجِد کی آلودَگی کا اندیشہ ہے اور نہ ہی نَجاست کی بُو باقی ہوتو پھرنا جائز نہیں ہے۔ البتّہ یہ یاد رہے کہ جو تے پاک ہوں تب بھی مسجِد میںپہن کرجانابے اَدَبی ہے۔

ناسمجھ بچّے یابچّی! پاگل (یابے ہوش یا جس پر جِنّ آیا ہوا ہو اُس) کو دم کروانے کیلئے چاہے ’’پِمپَر‘‘ (PEMPER)لگا ہو تب بھی مسجد میں لے جانااوپر بیان کی ہوئی تفصیل کے مطابق منع ہے ،اور اگر آپ ایسوں کو مسجِدمیں لانے کی بھول کرچکے ہیں اور صورت ناجائز والی ہے تو برائے کرم ! فوراً توبہ کرکے آیَندہ نہ لانے کاعَہد کیجئے ۔ ہاں فِنائے مسجِد مَثَلاً امام صاحِب کے حُجرے میں لے جاسکتے ہیں جبکہ مسجِد کے اندر سے لیکر نہ گزرنا پڑے ۔ جب عام مسجدوں کے یہ آداب ہیں تو مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور مسجِدُ الحرام شریف کے کتنے آداب ہوں گے!یہ ہر عاشقِ رسول بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ مسجدَینِ کریمین کو بچّوں سے بچانے کی بَہُت سخت حاجت ہے، آج کل بچّے وہاں چیختے چلّاتے دندناتے پھرتے ہیں اوربعض اوقات مَعَاذَاللہ عَزَّوَجَلَّگندگیاں بھی کر دیتے ہیں ،مگر افسوس !لے جانے والوں کواکثر اِس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی!بے شک یہ بچّے ناسمجھ ہیں، ان پر کوئی الزام نہیں مگر اِس کا وبال لے جانے والے پر ہے ۔ اگر سمجھدار بچّے کوبھی لے جائیں تو اُس پر بھی کڑی نظر رکھئے کہ کُود پھاند کرکے لوگوں کی عبادت میں رَخنہ انداز نہ ہو۔

بچّہ اور رَوضۂ انور کی حاضِری

سُوال : تو نا سمجھ بچّوں کو سنہری جالیوں کے رو برو حاضِری دلانے کی کیا صورت ہو گی؟

جواب: اِس کیلئے مسجد شریف میں لانا پڑیگا۔ اس کے احکام ابھی گزرے ۔ لہٰذا مسجد شریف کے باہَر سبزسبز گنبد کے رُوبرو حاضِری دلوا دیجئے۔

سُوال:کیا بیان کردہ حج و عمرہ وغیرہ کے تعلُّق سے بچّی کے بھی یِہی احکام ہیں؟

جواب: جی ہاں۔

Share