{۱}: دسویں کو بڑے شیطان کی رَمی کرنے کے بعد قُربان گاہ تشریف لایئے اورقُربانی کیجئے، یہ وہ قُربانی نہیں جو بَقَرہ عید میں ہُوا کرتی ہے بلکہ حج کے شکرانے میں قارِن اور مُتَمَتِّع پر واجِب ہے چاہے وہ فقیرہی کیوں نہ ہو،مُفرِد کے لئے یہ قُربانی مُستحب ہے چاہے وہ غنی(مالدار) ہو۔
{۲}: یہاں بھی جانور کی وُہی شرائط ہیں جو بقرہ عید کی قُربانی کی ہوتی ہیں ۔(بہارِ شریعت ج ۱ ص۱۱۴۰)مَثَلاًبکرا (اس میں بکری ،دُنبہ، دُنبی اوربھیڑ(نرو مادہ) دونوں شامل ہیں )ایک سال کا ہو، اس سے کم عمر ہوتو قربانی جائز نہیں ، زیادہ ہوتو جائز بلکہ افضل ہے۔ ہاں دُنبہ یا بَھیڑ کا چھ مہینے کا بچّہ اگر اتنا بڑا ہوکہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہوتو اس کی قربانی جائز ہے۔(دُرِّمُختارج۹ص۵۳۳) یادرکھئے!مُطلَقاًچھ ماہ کے دُنبے کی قربانی جائز نہیں ، اس کا اِتنا فَربَہ(یعنی تگڑا) اور قد آور ہونا ضَروری ہے کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا لگے۔اگر 6ماہ بلکہ سا ل میں ایک دن بھی کم عمر کا دُنبے یا بَھیڑ کا بچّہ جودُور سے دیکھنے میں سال بھر کا نہیں لگتا تو اس کی قربانی نہیں ہو گی۔
{۳}: اگر جانور کاکان ایک تہائی(3/1) سے زِیادہ کٹا ہوا ہوگا توقُربانی ہوگی ہی نہیں اور اگر تہائی یا اِس سے کم کٹا ہُوا ہو، یا چِرا ہوا ہو یا اُس میں سوراخ ہو اِسی طرح کوئی تھوڑا سا عیب ہوتو قربانی ہو تو جائے گی مگر مکروہِ( تنزیہی ) ہو گی۔
{۴}: ذَبح کرنا آتا ہو تو خود ذَبح کرے کہ سنت ہے، ورنہ ذَبح کے وَقْت حاضر رہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۱۱۴۱)دوسرے کو بھی قُربانی کا نائب کرسکتے ہیں۔[1]
{۵}: اُونٹ کی قُربانی افضل ہے کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حِجَّۃُ الْوَداع کے موقع پر اپنے دَستِ مُبارَک سے63 اُونٹ نَحْر فرمائے ۔ اور سرکار ِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اجازت سے بَقِیَّہ اُونٹ حضرتِ مولاعلی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے نحرکئے۔(مسلم ص۶۳۴حدیث ۱۲۱۸)ایک اور روایت میں ہے کہ سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس پانچ یا چھ اُونٹ لائے گئے تو اُونٹوں پر بھی گویا ایک وجد طاری تھا اور وہ اس طرح آگے بڑھ رہے تھے کہ ہر ایک چاہتا تھا کہ پہلے مجھے نَحْر ہونے کی سعادت مل جائے۔(ابوداوٗدج۲ ص ۲۱۱حدیث ۱۷۶۵)
ہر اک کی آرزو ہے پہلے مجھ کو ذَبح فرمائیں
تماشا کر رہے ہیں مرنے والے عیدِ قرباں میں (ذوقِ نعت)
{۶}: بہتر یہ ہے کہ ذبح کے وقت جانور کے دونوں ہاتھ، ایک پاؤں باندھ لیجئے ذَبح کرکے کھول دیجئے۔ یہ قربانی کرکے اپنے اور تمام مسلمانوں کے حجّ و قربانی قَبول ہونے کی دعا مانگئے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۱۱۴۱)
{۷}: دسویں کو قُربانی کرنا افضل ہے گیارہویں اور بارہویں کو بھی کرسکتے ہیں مگر بارہویں کو غُروبِ آفتاب پر قُربانی کا وَقْت ختم ہوجاتاہے۔
سُوال: حاجی پر بَقرہ عید کی قُربانی واجب ہے یا نہیں ؟
جواب: مُقِیم مالدار حاجی پر واجِب ہے، مُسافِرحاجی پر نہیں اگر چِہ مالدار ہو۔بَقَرہ عید کی قربانی کاحَرَم شریف میں ہونا ضَروری نہیں ، اپنے مُلک میں بھی کسی کو کہہ کر کروائی جاسکتی ہے۔ البتّہ دن کا خیال رکھنا ہو گا کہ جہاں قربانی ہونی ہے وہاں بھی اور جہاں قربانی والا ہے وہاں بھی دونوں جگہ ایّام قربانی ہوں۔مُقِیم حاجی پر قربانی واجِب ہونے کے بارے میں ’’اَلْبَحرُالرَّائق‘‘ میں ہے:اگر حاجی مسافر ہے تو اُس پر قربانی واجِب نہیں ہے ،ورنہ وہ(یعنی مقیم حاجی) مکّی کی طرح ہے اور(غنی ہونے کی صورت میں ) اُس پرقربانی واجِب ہے۔(اَلبَحرُالرّائق ج۲ ص۶۰۶)عُلَماء کرام نے جس حاجی پر قربانی واجِب نہ ہونے کاقَول کیا ہے اس سے مُراد وہ حاجی ہے جو مسافِر ہو۔(رفیق الحرمین، ص۱۹۸)
[1] ۔۔۔ قُربانی کے مَسائل کی تفصیلی معلومات کے لئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ بہارِشریعت جلد3 صفحہ327 تا353 نیز مکتبۃ المدینہ کا مطبوعہ رسالہ’’ ابلق گھوڑے سوار‘‘ پڑھئے۔
Comments