حج و عمرے والے کے لئے 56 نیتیں

حج و عمرے والے کیلئے 56نیّتیں

(مع روایات، حکایات و مدنی پھول)

(حجّاج و مُعتَمِرین ان میں سے موقع کی مُناسَبَت سے وہ نیتیں کر لیں جن پر عمل کرنے کا واقِعی ذِہن ہو)

[1]: صِرْف رِضائے الٰہیعَزَّ وَجَلَّ پانے کے لئے حج کروں گا۔(قَبولیَّت کیلئے اِخلاص شرط ہے اور اخلاص حاصل کرنے میں یہ بات بہت معاون ہے کہ جب ریا کاری اور شہرت کے تمام اسباب تَرْک کر دیئے جائیں ۔فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے:لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ میری اُمّت کے اَغنِیاء(یعنی مالدار)سَیر و تفریح کے لیے اور درمِیانے دَرَجے کے لوگ تجارت کے لیے اور قُرّاء ( یعنی قاری)دِکھانے اور سنانے کیلئے اور فُقَرا مانگنے کے لئے حج کریں گے۔(تاریخ بغداد ج ۱۰ ص ۲۹۵)

[ 2]: اِس آیتِ مبارَکہ پر عمل کروں گا :

وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ۲، البقرۃ:۱۹۶)

ترجَمۂ کنزالایمان : حج اورعمرہ اللہ کے لئے پورا کرو ۔

[3]: (یہ نیّت صِرْف فرض حج کرنے والا کرے) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اطاعت کی نیَّت سے اِس حکمِ قراٰنی:

وَ  لِلّٰهِ  عَلَى  النَّاسِ   حِجُّ  الْبَیْتِ  مَنِ  اسْتَطَاعَ  اِلَیْهِ  سَبِیْلًا

ترجَمۂ کنزالایمان:اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے ۔ (پ۴، اٰل عمران:۹۷)

پرعمل کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔

[4]: حُضُورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی میں حج کروں گا۔

[5]: ماں باپ کی رِضا مندی لے لوں گا ۔(بیوی شوہر کو رِضا مندکرے ، مقروض جو ابھی قرض ادانہیں کر سکتا تو اُس( قرض خواہ)سے بھی اجازت لے، اگر حج فرض ہوچکا ہے تو اِجازت نہ بھی ہو تب بھی جانا ہوگا، (مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج ا ص ۱۰۵۱) ہاں عُمرہ یانَفلی حج کے لئے والِدَین سے اِجازت لئے بِغیر سفرنہ کریں ۔ یہ بات غَلَط مشہورہے کہ جب تک والِدَین نے حج نہیں کیا اولاد بھی حج نہیں کرسکتی)۔

[6]:مالِ حلال سے حج کروں گا ۔( ورنہ حج قَبول ہونے کی اُمّید نہیں اگرچِہ فرض اُتر جائے گا۔ اگر اپنے مال میں کچھ شُبہ ہو تو قرض لے کر حج کو جائے اور وہ قرض اپنے (اُسی مشکوک) مال سے ادا کردے۔ (ایضاً)حدیث شریف میں ہے: جو مالِ حرام لے کر حج کو جاتا ہے جب لَبَّیْک کہتا ہے، ہاتِف غیب سے جواب دیتا ہے :نہ تیری لَبَّیْک قَبول، نہ خدمت پذیر (یعنی منظور) اور تیرا حج تیرے منہ پر مردود ہے، یہاں تک کہ تُو یہ مالِ حرام کہ تیرے قبضے میں ہے اُس کے مستحقوں کو واپَس دے۔(فتاویٰ رضویہ ج۲۳ ص ۵۴۱))

[7]:سفرِ حج کی خریداریوں میں بھاؤ کم کروانے سے بچوں گا۔ (میرے آقااعلیٰ حضرت ،امام احمد رضاخانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں :بھاؤ(میں کمی) کے لئے حُجَّت( یعنی بَحث و تکرار) کرنا بہتر ہے بلکہ سنّت، سوا اُس چیز کے جو سفرِ حج کے لئے خریدی جائے ، اِس (یعنی سفرِ حج کی خریداریوں ) میں بہتر یہ ہے کہ جو مانگے دیدے۔(فتاویٰ رضویہ ج۱۷ ص ۱۲۸ ))

[8]:چلتے وقت گھروالوں ، رشتے داروں اور دوستوں سے قُصور مُعاف کرواؤں گا،ان سے دعا کرواؤں گا۔( دوسروں سے دعا کروانے سے بَرَکت حاصِل ہوتی ہے ، اپنے حق میں دوسرے کی دُعا قَبول ہونے کی زیادہ امّید ہوتی ہے۔دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 326صَفْحات پر مشتمل کتاب ’’فضائلِ دُعا‘‘صَفْحَہ111پر ہے :منقول ہے، حضرتِ موسیٰ عَلَیْہَ الصَّلَاۃ ُوَالسَّلَامکو خطاب ہوا:اے موسیٰ! مجھ سے اُس منہ کے ساتھ دُعا مانگ جس سے تُو نے گناہ نہ کیا۔ عرض کی: الٰہی! وہ منہ کہاں سے لاؤں ؟(یہاں انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃ ُوَالسَّلَام کی تواضُع ہے ورنہ وہ یقینا ہر گناہ سے معصوم ہیں ) فرمایا: اَوروں سے دُعا کرا کہ اُن کے مُنہ سے تُو نے گناہ نہ کیا۔(مُلَخَّص اَز مثنوی مولانا روم دفتر سوم ص۳۱)

[9]:حاجت سے زائد تَوشہ(اَخراجات) رکھ کر رُفَقاء پر خَرْچ اور فُقَراء پر تصدُّق(یعنی خیرات) کر کے ثواب کماؤں گا ۔ (ایسا کرنا حجِّ مَبرور کی نشانی ہے،)مَبرور اُس حج اور عمرہ کو کہتے ہیں کہ جس میں خیر اور بھلائی ہو، کوئی گناہ نہ ہو،دِکھاواسنانا نہ ہو، لوگوں کے ساتھ اِحسان کرنا، کھانا کھلانا ،نَرْم کلام کرنا، سلام پھیلانا، خوش خُلقی سے پیش آنا، یہ سب چیزیں ہیں جو حج کو مبرور بناتی ہیں ۔ جبکہ کھاناکھلانا بھی حجِّ مَبرور میں داخِل ہے تو حاجت سے زیادہ تَوشہ ساتھ لو تا کہ رفیقوں کی مدد اور فقیروں پر تصدُّق بھی کرتے چلو۔ اصل میں مَبرور’’بِر‘‘ سے بنا ہے۔ جس کے معنیٰ اُس اطاعت اور اِحسان کے ہیں جس سے خدا کا تقرُّب حاصل کیا جاتاہے۔(کتاب الحج، ص ۹۸))

[10]:زَبان اور آنکھ وغیرہ کی حفاظت کروں گا۔(نصیحتوں کے مَدَنی پھولصَفْحَہ 29 اور 30پر ہے: (۱)(حدیثِ پاک ہے: اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے)اے ابنِ آدم! تیرا دِین اُس وَقت تک دُرُست نہیں ہوسکتاجب تک تیری زَبان سیدھی نہ ہواور تیری زَبان تب تک سیدھی نہیں ہوسکتی جب تک تُواپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ سے حَیا نہ کرے۔ (۲)جس نے میری حرام کردہ چیزوں سے اپنی آنکھوں کوجُھکا لیا(یعنی انہیں دیکھنے سے بچا)میں اسے جہنَّم سے امان (یعنی پناہ) عطاکر دوں گا )۔

[11]: دَورانِ سفر ذِکر ودُرُود سے دل بہلاؤں گا ۔( اس سے فِرِشتہ ساتھ رہے گا ! گانے باجے اورلَغوِیات کا سلسلہ رکھا تو شیطان ساتھ رہے گا)۔

[12]: اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے دُعا کرتا رہوں گا۔( مسافِر کی دعا قَبول ہوتی ہے۔ نیز’’فضائلِ دُعا ‘‘صفحہ 220پر ہے: مسلمان کہ مسلمان کے لیے اُس کی غَیْبَت (یعنی غیر موجودَگی) میں (جو) دُعا مانگے(وہ قَبول ہوتی ہے) حدیث شر یف میں ہے:یہ (یعنی غیر موجودَگی والی )دُعا نہایت جلد قَبول ہوتی ہے۔ فِرِشتے کہتے ہیں:اُس کے حق میں تیری دعا قَبول اور تجھے بھی اِسی طرح کی نِعمت حُصُول) )۔

[13]: سب کے ساتھ اچّھی گفتگو کروں گا اور حسبِ حیثیَّت مسلمانوں کو کھانا کِھلاؤں گا۔(فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:مَبرور حج کا بدلہ جنَّت ہے۔ عَرض کی گئی : یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!حج کی مَبروریّت کس چیز کے ساتھ ہے ؟فرمایا: اچّھی گفتگو اور کھانا کھلانا۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۴۷۹ حدیث۴۱۱۹)

[14]:پریشانیاں آئیں گی توصَبْر کروں گا۔ (حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں :مال یا بدن میں کوئی نقصان یا مصیبت پہنچے تو اُسے خوش دلی سے قَبول کرے کیوں کہ یہ اِس کےحجِّ مَبرور کی علامت ہے۔(اِحیاءُالعلوم ج۱ ص ۳۵۴)۔

[15]: اپنے رُفَقاء کے ساتھ حُسنِ اَخلاق کا مُظاہَرہ کرتے ہوئے ان کے آرام وغیرہ کا خیال رکھوں گا،غصّے سے بچوں گا ، بے کار باتوں میں نہیں پڑوں گا، لوگوں کی(ناخوشگوار) باتیں برداشت کروں گا۔

[16]:تمام خوش عقیدہ مسلمان عَرَبوں سے(وہ چاہے کتنی ہی سختی کریں ، میں ) نرمی کے ساتھ پیش آؤں گا۔( بہارِ شریعت جلد۱حصّہ6 صَفْحَہ1060پر ہے:بدوؤں اور سب عَرَبیوں سے بَہُت نرمی کے ساتھ پیش آئے، اگر وہ سختی کریں (بھی تو) ادب سے تَحَمُّل(یعنی برداشت) کرے اِس پر شَفاعت نصیب ہونے کا وعدہ فرمایا ہے۔ خُصُوصاً اہلِ حَرَمین،خُصُوصاً اہلِ مدینہ۔ اہلِ عَرَب کے اَفعال پر اعتِراض نہ کرے، نہ دل میں کَدُورَت(یعنی مَیل) لائے، اس میں دونوں جہاں کی سعادت ہے)۔

[17]: بِھیڑ کے موقع پر بھی لوگوں کو اَذِیَّت نہ پہنچے اِس کا خیال رکھوں گا اور اگر خود کو کسی سے تکلیف پہنچی تو صَبْر کرتے ہوئے مُعاف کروں گا۔ (حدیثِ پاک میں ہے:جو شخص اپنے غُصّے کو روکے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے روز اُس سے اپنا عذاب روک دے گا۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۶ ص۳۱۵ حدیث ۸۳۱۱))۔

[18]:مسلمانوں پر اِنفِرادی کوشِش کرتے ہوئے ’’نیکی کی دعوت‘‘ دے کر ثواب کماؤں گا۔

[19]: سفر کی سنّتوں اور آداب کا حتَّی الامکان خیال رکھوں گا۔

[20]: اِحْرام میں لَبَّیْککی خوب کثرت کروں گا۔( اسلامی بھائی بُلند آواز سے کہے اور اسلامی بہن پَست آواز سے)۔

[21]:مسجِدَینِ کَریْمَین (بلکہ ہر جگہ ہر مسجد )میں داخِل ہوتے وَقْت پہلے سیدھا پاؤں اندر رکھوں گااور مسجِد میں داخِلے کی دُعاپڑھوں گا۔اِسی طرح نکلتے وَقت اُلٹا پہلے نکالوں گا اور باہَرنکلنے کی دُعا پڑھوں گا۔

[22]: جب جب کسی مسجِد خُصُوصاً مسجِدَینِ کَریْمَین میں داخِلہ نصیب ہوا ، نفلی اعتِکاف کی نیّت کر کے ثواب کماؤں گا ۔ (یاد رہے! مسجِد میں کھانا پینا، آبِ زم زم پینا،سَحَری و اِفطار کرنا اور سونا جائز نہیں ، اعتِکاف کی نیّت کی ہو گی تو ضمناً یہ سب کام جائز ہو جائیں گے )۔

[23]: کعبۂ مُشَرَّفہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پر پہلی نظر پڑتے ہی دُرُودِ پاک پڑھ کر دعا مانگوں گا۔

[24]:دَورانِ طواف ’’مُسْتَجاب ‘‘پر(جہاں ستّرہزارفِرِشتے دُعا پر اٰمین کہنے کے لئے مقرَّر ہیں وہاں ) اپنی اور ساری امّت کی مغفِرت کیلئے دعا کروں گا۔

[25]: جب جب آبِ زم زم پیوں گا، ادائے سنَّت کی نیّت سے قبلہ رُو،کھڑے ہو کر،بِسمِ اللّٰہ پڑھ کر ،چوس چوس کر تین سانس میں ، پیٹ بھر کر پیوں گا ، پھر دُعامانگوں گا کہ وقتِ قَبول ہے۔(فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: ہم میں اور مُنافِقوں میں یہ فرق ہے کہ وہ زمزم کُوکھ (یعنی پیٹ )بھر نہیں پیتے۔(ابن ماجہ ج ۳ ص ۴۸۹ حدیث ۳۰۶۱))

[26]:مُلتَزَم سے لپٹتے وَقت یہ نیَّت کیجئے کہمَحَبَّت و شوق کے ساتھ کعبہ اور ربِّ کعبہ عَزَّ وَجَلَّ کا قُرب حاصِل کر رہا ہوں اور اُس کے تعلُّق سے بَرَکت پا رہاہوں ۔(اُس وَقت یہ امّید رکھئے کہ بدن کا ہر وہ حصّہ جو کعبۂ مَشرَّفہ سے مَس(TOUCH) ہوا ہے اِنْ شَآءَاللہ جہنَّم سے آزاد ہوگا)۔

[27]: غلافِ کعبہ سے چمٹتے وَقت یہ نیّت کیجئے کہ مغفِرت وعافیت کے سُوال میں اِصرار کر رہا ہوں ، جیسے کوئی خطاکار اُس شخص کے کپڑوں سے لپٹ کر گڑ گڑا تا ہے جس کا وہ مُجرِم ہے اور خوب عاجِزی کرتا ہے کہ جب تک اپنے جُرم کی مُعافی اور آیَندہ کے اَمن و سلامَتی کی ضمانت نہیں ملے گی دامن نہیں چھوڑوں گا۔( غلافِ کعبہ وغیرہ پر لوگ کافی خوشبو لگاتے ہیں لہٰذا اِحرام کی حالت میں اِحتیاط کیجئے )۔

[28]: رَمیِ جَمرات میں حضرتِسیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مُشابَہَت ( یعنی مُوافَقَت)اورسرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنّت پر عمل ، شیطان کو رُسوا کر کے مار بھگانے اور خواہِشاتِ نفسانی کو رَجْم (یعنی سنگسار) کرنے کی نیّت کیجئے۔(حکایت:حضرتِ سیِّدُنا جُنیدِ بغدادیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الھَادِینے ایک حاجی سے پوچھا کہ تُو نے رَمی کے وَقت نفسانی خواہِشات کوکنکریاں ماریں یا نہیں ؟ اُس نے جواب دیا:نہیں ۔ فرمایا : توپھر تُو نے رمی ہی نہیں کی۔(یعنی رَمی کا پورا حق ادا نہیں کیا)(مُلَخَّص از کشف المحجوب ص ۳۶۳ ))

[29]:سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بالخصوص چھ مقامات یعنی صَفا، مَروہ، عَرَفات ، مُزدَلِفہ،جَمرۂ اُولیٰ،جَمرۂ وُسطٰی پر دعا کیلئے ٹھہرے ، میں بھی ادائے مصطَفٰے کی ادا کی نیّت سے ان جگہوں میں جہاں جہاں ممکِن ہوا و ہاں رُک کر دُعا مانگوں گا۔

[30]:طواف وسَعی میں لوگوں کو دھکّے دینے سے بچتا رہوں گا۔(جان بوجھ کر کسی کو اس طرح دھکّےدینا کہ ایذا پہنچے بندے کی حق تلفی اور گناہ ہے ،توبہ بھی کرنی ہو گی اور جس کو اِیذا پہنچائی اُس سے مُعاف بھی کرانا ہو گا۔ بُزُرگوں سے منقول ہے:ایک دانگ کی(یعنی معمولی سی) مقدار اللہ تَعَالٰی کے کسی ناپسندیدہ فِعل کو ترک کر دینا مجھے پانچ سو نفلی حج کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔(جامع العلوم والحکم لابن رجب ص ۱۲۵ ))۔

[31]: عُلَماء ومشائخِ اہلسنّت کی زیارت و صُحبت سے بَرَکت حاصِل کروں گا، ان سے اپنے لئے بے حساب مغفِرت کی دعا کرواؤں گا۔

[32]: عبادات کی کثرت کروں گا بالخصوص نَمازِ پنجگانہ پابندی سے اداکروں گا۔

[33]: گناہوں سے ہمیشہ کیلئے توبہ کرتا ہوں اورصِرف اچّھی صُحبت میں رہا کروں گا۔(اِحیاء ُالعلوم میں ہے : حج کی مَبرورِ یَّتکی ایک علامت یہ ہے کہ جو گناہ کرتا تھا اُنہیں چھوڑ دے، بُرے دوستوں سے کَنارہ کش ہو کر نیک بندوں سے دوستی کرے، کھیل کود اور غفلت بھری بیٹھکوں کو ترک کر کے ذِکر اور بیدار ی کی مَجالِس اختِیار کرے۔ امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی ایک اور جگہ فرماتے ہیں : حجِّ مَبرور کی علامت یہ ہے کہ دنیا سے بے رغبت اور آخِرت کی جانب مُتَوجِّہ ہو اور بیتُ اللّٰہ شریف کی ملاقات کے بعد اپنے ربِّ کائنات عَزَّ وَجَلَّ کی ملاقات کیلئے تیّاری کرے۔(اِحیاءُ العلوم ج ۱ ص ۳۴۹ ، ۳۵۴ ))

[34]:واپَسی کے بعد گناہوں کے قریب بھی نہ جاؤں گا ،نیکیوں میں خوب اِضافہ کروں گا اور سنّتوں پر مزید عمل بڑھاؤں گا (اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :(حج سے پہلے کے حُقُوقُ اللّٰہ اور حُقوقُ العِباد جس کے ذمّے تھے) اگر بعدِ حج با وَصفِ قدرت اُن اُمور(مَثَلاً قضا نَمازوروزہ ،باقی ماندہ زکوٰۃ وغیرہ اورتَلَف کردہ بقیّہ حُقُوقُ العباد کی ادائیگی ) میں قاصِر رہا تو یہ سب گناہ از سرِنو اُس کے سر ہوں گے کہ حُقُوق تو خودباقی ہی تھے اُن کے ادا میں پھرتاخیر و تقصیرسے گناہ تازہ ہوئے اور وہ حج ان کے اِزالے کو کافی نہ ہو گا کہ حج گزرے(یعنی پچھلے) گناہوں کو دھوتا ہے آیَندہ کے لئے پروانۂ بے قَیدی(یعنی گناہ کرنے کا اجازت نامہ ) نہیں ہوتا بلکہ حجِ مَبرور کی نشانی ہی یہ ہے کہ پہلے سے اچّھا ہو کر پلٹے۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۴ ص ۴۶۶ ))۔

[35]: مکّۂ مکرَّمہ اور مدینۂ منوَّرہ زَادَھُمَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے یاد گار مبارَک مقامات کی زِیارت کروں گا۔

[36]: سعادت سمجھتے ہوئے بہ نیَّتِ ثواب مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی زِیارت کروں گا۔

[37]: سرکارِ مدینہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے دربارِ گُہَر بار کی پہلی حاضِری سے قبل غسل کروں گا، نیا سفید لباس،سر پر نیا سربندنئی ٹوپی اور اس پر نیا عمامہ شریف باندھوں گا، سُرمہ اورعمدہ خوشبو لگاؤں گا۔

[38] اللہ عَزَّ وَجَلَّکے اس فرمانِ عالیشان : وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴)۵،النساء:۶۴)(ترجَمۂ کنزالایمان:اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھراللہسے مُعافی چاہیں ا ور رسول ان کی شَفاعت فرمائے تو ضَرور اللہکوبَہُت توبہ قَبول کرنے والا مہربان پائیں ) پر عمل کرتے ہوئے مدینے کے شَہَنْشاہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہِ بیکس پناہ میں حاضِری دوں گا۔

[39]: اگر بس میں ہوا تواپنے مُحسن وغمگُسار آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی با رگاہ ِ بے کس پناہ میں اس طرح حاضِرہوں گاجس طرح ایک بھاگا ہوا غلام اپنے آقا کی بارگاہ میں لرزتا کانپتا ، آنسو بہاتاحاضِر ہوتا ہے ۔ (حکایت : سیّدُنا امام مالِکعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِق جب سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذِکر کرتے رنگ اُن کا بدل جاتا اورجُھک جاتے۔ حکایت : حضرتِ سیِّدُنا امامِ مالِکعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِق سے کسی نے حضرتِ سیِّدُنا اَیُّوب سَخْتِیَانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّبَانِی کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: میں جن حَضْرات سے روایت کرتا ہوں وہ اُن سب میں افضل ہیں ،میں نے انہیں دو مرتبہ سفرِ حج میں دیکھا کہ جب ان کے سامنے نبیِّ کریم ، رَء ُوْفٌ رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلَاۃِ وَالسَّلَام کا ذکرِ انور ہوتا تو وہ اتنا روتے کہ مجھے ان پر رَحم آنے لگتا۔میں نے ان میں جب تعظیمِ مصطَفٰے وعشقِ حبیبِ خدا کا یہ عالَم دیکھاتو مُتأَثِّر ہو کران سے احادیثِ مبارَکہ روایت کرنی شُروع کیں ۔(الشفاء ج۲ ص ۴۱ ، ۴۲)) {40}سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شاہی دربار میں ادب واحتِرام اور ذوق وشوق کے ساتھ درد بھری مُعتَدِل(یعنی درمیانی) آواز میں سلام عرض کروں گا ۔

[41]: حکمِ قراٰنی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)۲۶،الحجرات:۲)(ترجَمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو !اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی)کی آواز سے اور ان کے حُضُور بات چِلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چِلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اَکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو)پرعمل کرتے ہوئے اپنی آواز کوپَست اور قدرے دھیمی رکھوں گا۔

[42]: اَسْئَلُکَ الشَّفاعَۃَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ( یعنی یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!میں آپ کی شَفاعت کا سُوالی ہوں )کی تکرار کر کے شَفاعت کی بھیک مانگوں گا۔

[43]:شیخین کَریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی عَظَمت والی بارگا ہوں میں بھی سلام عرض کروں گا۔

[44]: حاضِری کے وَقت اِدھر اُدھر دیکھنے اورسُنہَری جالیوں کے اندر جھانکنے سے بچوں گا۔

[45]: جن لوگوں نے سلام پیش کرنے کا کہا تھا اُن کا سلام بارگاہِ شاہِ انام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عَرْض کروں گا۔

[46]: سُنہَری جالیوں کی طرف پیٹھ نہیں کروں گا۔

[47]: جنَّتُ البقیع کے مَدفُونین کی خدمتوں میں سلام عرض کروں گا۔

[48]: حضرتِ سیِّدُنا حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اورشُہَدائے اُحُد کے مزرات کی زیارت کروں گا ، دعا و ایصالِ ثواب کروں گا، جَبَلِ اُحُد کا دیدار کروں گا۔

[49]: مسجدِ قُبا شریف میں حاضِری دوں گا۔

[50]: مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے درودیوار ، بَرگ وبار،گل وخار اورپتَّھر و غبار اور وہاں کی ہر شے کاخوب ادب واحتِرام کروں گا۔ (حکایت: حضرت سیِّدُنا امامِ مالِک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِق نے تعظیمِ خاکِ مدینہ کی خاطرمدینہ ٔطیبہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں کبھی بھی قَضائے حاجت نہیں کی بلکہ ہمیشہ حَرَم سے باہَر تشریف لے جاتے تھے ،البتَّہ حالتِ مَرَض میں مجبوری کی وجہ سے معذورتھے۔(بستان المحدثین ص۱۹))

[51]: مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی کسی بھی شے پر عیب نہیں لگاؤں گا ۔ (حکایت:مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں ایک شخص ہر وقت روتا اورمُعافی مانگتا رہتا تھا، جب اِس کا سبب پوچھا گیا تو بولا: میں نے ایک دن مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی دَہی شریف کو کھٹّااورخراب کہہ دیا، یہ کہتے ہی میری نسبت سَلب ہو گئی اور مجھ پر عِتاب ہوا ( یعنی ڈانٹ پڑی) کہ’’ اَو دِیارِ محبوب کی دَہی کوخراب کہنے والے! نگاہِ مَحَبَّت سے دیکھ! محبوب کی گلی کی ہرہر شے عمدہ ہے۔‘‘( ماخوذاز بہارِ مثنوی ص۱۲۸ )حکایت : حضرتِ سیِّدُنا امام مالک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِق کے سامنے کسی نے یہ کہہ دیا کہ ’’مدینے کی مٹّی خراب ہے ‘‘یہ سن کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی عَلَیْہ نے فتویٰ دیا کہ اس گستاخ کو تیس دُرّے لگائے جائیں اور قید میں ڈال دیا جائے۔(الشفاء ج۲ص۵۷ ))۔

[52]: عزیزوں اور اسلامی بھائیوں کوتُحفہ دینے کیلئے آبِ زم زم، مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی کَھجوریں اور سادہ تَسبِیحَیں وغیرہ لاؤں گا۔ (بارگاہِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی عَلَیْہ میں سُوال ہوا : تسبیح کس چیز کی ہونی چاہئے؟ آیا لکڑی کی یا پتَّھروغیرہ کی؟الجواب: تسبیح لکڑی کی ہو یا پتّھر کی مگر بیش قیمت( یعنی قیمتی) ہونا مکروہ ہے اور سونے چاندی کی حرام۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۳ ص ۵۹۷)

[53]: جب تک مدینۂ منوَّرہزَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں رہوں گا دُرُود و سلام کی کثرت کروں گا۔

[54]: مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں قِیام کے دَوران جب جب سبز گنبد کی طرف گزر ہو گا، فوراً اُس طرف رُخ کر کے کھڑے کھڑے ہاتھ باندھ کر سلام عرض کروں گا۔ (حکایت : مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں سیِّدُنا ابو حازِم رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں حاضِر ہو کر ایک صاحِب نے بتایا : مجھے خواب میں جنابِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت ہوئی، فرمایا: ابو حازِم سے کہدو،’’ تم میرے پاس سے یوں ہی گزر جاتے ہو، رُک کر سلام بھی نہیں کرتے!‘‘ اس کے بعد سیِّدُنا ابو حازِم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنا معمول بنا لیا کہ جب بھی روضۂ انور کی طرف گزر ہوتا ، ادب و احتِرام کے ساتھ کھڑے ہو کر سَلام عرض کرتے، پھر آگے بڑھتے۔(المنامات مع موسوعۃ ابن اَبِی الدُّنْیا ج۳ص۱۵۳حدیث۳۲۳))

[55]: اگرجنَّتُ البقیع میں مدفن نصیب نہ ہوا، اورمدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے رخصت کی جاں سوز گھڑی آگئی تو بارگاہِ رسالت میں اَلوَداعی حاضِری دوں گااور گڑ گڑا کر بلکہ ممکن ہوا تو رو رو کر بار بار حاضِری کی التِجاکروں گا۔

[56]: اگر بس میں ہُو اہو توماں کی مامتا بھری گود سے جداہونے والے بچّے کی طرح بِلک بِلک کر روتے ہوئے دربارِرسول کو بار بار حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے رخصت ہوں گا۔

Share

Comments